musalmanon ka baldiyati nizam
کسی بھی مضبوط جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ قیام پاک 200 جسے بعدازاں 1962 ء کے دستور میں شامل کیا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے اس نظام پر دس ہزار کی آ آباد ی پر مشφ 1000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000 یونین کونسل کا سربراہ چیئرمین کہلاتا تھا۔ یونین کونسل کے دائرہ کار میں مقامی سطح پر امن و امان کے قیام ااbus ز کی ت میں میں میں میں میں میں میں میں کردا یںرداist مقامی منصوبوں کیلئے یونین کونسل ٹیکس عائد کرنے کی مجاز ہوتی تھی ۔ صدر پاکستان کے انتخابات کیلئے یہی ارکان ووٹ ڈالتے تھے ۔ اسی طرح تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں ڈپٹی کمشنر کی نگ Inter 1969 ء میں ایوب خان کی حکومت کی رخصتی کے ساتھ یہ نظام بھی رخصت ہو گیا۔ دوسری بار لوکل گورنمنٹ سٹم جنرل ضیاء الحق نے 1979 ء میں نportunità شہروں میں ٹاؤن کمیٹی، مپونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن وجود میں آئیں اور دیہی سطح پر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے وجود میں آئے۔ Una volta che hai avuto un'idea di come andare in giro per una vacanza in un'altra città تیسری بار 2001 ء میں بلدیاتی نظام پھر ایک فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نئے انداؔ میں دیسری نئے بلدیاتی نظام کے تحت تین سطح پر مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ضلعی سطح پر ضلع ناظم ضلعی حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔ اسی طرح تحصیل ناظم اور یونین کونسل ناظم اپنی اپنی سطح پر سربراہ بنے۔ ڈی سی او کو ضلع ناظم کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کے ماتحت مختلف محکموں کے ای ڈی او، ڈی او اور ڈی ڈی اوز وغیرہ تھے۔ زیر نظر کتاب ''مسلمانوں کابلدیاتی نظام '' مشتاق اے چوہدری کی اس موضوع پر اولین کاوش ہے ۔پاکستان میں حکومت خود اختیاری کےتحت جو بلدیاتی نظام چل رہا ہے ۔مصنف نےاس نقطۂ نظر سے مسلمانوں کےبلدیاتی نظام پر اجمالاً بحث کی ہے ۔یہ کتاب بلدیاتی نظام کے موضوع پر متعدد اور مستند مآخذوں کا بہترین ما حاصل اور جامع خلاصہ ہے۔مؤلف نے زیر بحث موضوع پر نہایت اچھے الفاظ میں گفتگو کی ہے اور تاریخی شہادتوں سے یہ ثابت کیا ہ کہ یورپ میں جو آج بلدیاتی نظام کے نہایت اور اعلی نمونے دیکھتے کوملتے ہیں وہ اسلام ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں ۔(م۔ا).