اسوا حسین یانی شہید کربلا
سیدنا حسین اپنے بھائی سیدنا حسن سے ایک سال کے چھوٹے تھے وہ نبی کریم ﷺ کے نواسے، سیدنا فاطمہ بنت رسول کے اور سیدنا علی لخت جگر۔ سیدنا حسین ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینے میں آپ کی حاضری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور آپ کو دیے گئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام حسین رکھا۔ کے بال مونڈے گئے ۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جنتی محبت بیان کرتے تھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے سایہ عاطفت میں اپنے ان نواسوں کی تربیت کی۔ سیدنا حسین نے کہا کہ حج پیدل۔ وہاں کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات ہوئی تو ان کے پیچھے جنازے میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شریک تھے جب امام خضری صاحب مکہ میں موجود تھے اور حج کے ایام شروع ہو گئے۔ مگر کوفیوں نے دھوکا دیا اور لکھا کہ ہمارا کوئی امیر ہے۔ ہم سب اہل عراق آپ کو امیر بنانا چاہتے ہیں آپ جلد ہمارے پاس تشریف لے جائیں۔ اگر آپ نے تشریف نہ لائے تو قیامت کے دن ہم اللہ سے شکوہ کریں گے کہ ہمارا کوئی امیر نہیں اور نواسہ رسول نے ہماری بیعت کو قبول نہیں کیا تو حضرت حسین ؓ نے ان باتوں کو سچ سمجھ لیا اور کوفہ روانہ ہو گئے۔ سیدنا حسین کو بارہ ہزار خطوط لکھنے کے بعد حالات کا جائزہ لینے کے لیے سیدنا حسین نے اپنے عم زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا۔ پہلے کوفیوں نے ان کی بیعت کی پھر بے دردی کے ساتھ ان کو شہید کر دیا۔ حضرت حسین مقام ثعلبہ تو مسلم تو عقیل کی بیٹی کا علم ہوا آپ نے مسلم بن عقیل کے بٹوں کے بعد یزید سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ مسلم بن عقیل کے سکون جذبات تھے ۔کوفہ سے دور مقامِ ثعلبہ سے کوفہ کی جگہ شام کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے مسلم بن عقیل کے قتل میں براہ راست شریک اور خطوط بھیجنے والے غدار کوفیوں نے سمجھ لیا کہ اگر حسین یزید کے پاس پہنچ گئے۔ تو اصل سازش فاش ہو جائے اگر کوئی خطرہ ہمارے خلاف ہے تو حکومت کے ساتھ مفاہمت ہو گی اور ہمیں کوئی بچا نہیں سکتا۔ لہذا انہوں نے راستہ روکا ۔خطوط تو نہ ہو سکتا لیکن ابن زیاد سے براہ راست بیعت ایزید کا مطالبہ کرنا۔ سیدنا حسین نے تین شرطیں رکھیں کہ مجھے واپس مکہ جانے دو، یا مجھے کسی سرحد پر کسی دو فریق میں شریک ہو جاؤں گا، یا پھر ان کے پاس چلا جاتا ہے۔ ایک شرط بھی نہ مانی اورنواسۂ رسول کو واقعہ بیٹا سیدنا حسین میں اہل نظر کے لیے بہت سی عبرتیں اور نصائح ہیں اس کے لیے اس واقعہ کے بیان میں سیک کی تعداد میں مفصل ومختصر کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں بکثرت جیسے رسائل ہیں جن میں روایات اور مستند کتب ہیں۔ اس سے مضامین لینے کی ضرورت نہیں ہے؟ پیش نظر مولانا مفتی محمدشفیع (صاحب تفسیر معارف القرآن) نے بعض احباب کے تقاضہ پر تقریباً 65؍سال قبل زیر رسالہ بعنوان''اسوۂ حسینی یعنی حسین کربلا'' تحریر کیا ہے۔ ۔ جس میں انہوں نے کہا کہ جگر گوشۂ رسول اکرم ﷺ سیدنا حسین اور ان کے اصحاب کا واقعہ واقعہ کو مستند تاریخی حقیقت کی روشنی میں بیان کیا ۔(م۔ا)۔