uswa y hussaini yani shaheed y karbla
سیدنا حسین اپنے deseo سیدنا حسین ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینے میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش پر رسول اللہ ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ کو گھٹی دی ۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام حسین رکھا ۔ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا گیا او ر سر کے بال مونڈے گئے ۔ رسالiego مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محuestos فرماior اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترںہی ہی نبی کریم ﷺ نے اپنے سایہ عاطفت میں اپنے ان نواسوں کی تربیت کی ۔ سیدنا حسین نے پچیس حج پیدل کیے۔جہاد میں بھی حصہ لیتے رہے۔پہلا لشکendr وہاں میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات ہوئی omin امام کے ان کے جنازے میں ھی۔ ش م م چکے یں یں یں یں یں یں یں یں یں یں ھے ھے ھے ھے یں ھے ھے ھے ھے ھے ھے ھے ھے ھے مگر کوفیوں نے دھوکا دیا اور لکھا کہ ہمارا کوئی امیر نہیں۔ ہم سب اہل عراق آپ کو امیر بنانا چاہتے ہیں آپ جلد ہمارے پاس تشریف لی یی اگر آپ تشریف نہ لائے تو قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے کہ ہمارا کوئی امیر نہیں تھا اور نواسہ رسول نے ہماری بیعت قبول نہ کی تھی۔حضرت حسین نے ان باتوں کو سچ سمجھ لیا اور کوفہ روانہ ہو گئے۔روایات کے مطابق سیدنا حسین کو بارہ ہزار خط asistir پہلے ہزاروں کوفیوں نے ان کی بیعت کی پھر بے دردی کے ساتھ ان کو شہید کای د حضرت حسین مقام ثعلبہ پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہوا۔ آپ نے مسلم بن عقیل mountain مسلم بن عقیل کے بیٹے ہمراہ تھے ۔کوفہ سے دور مقامِ ثعلبہ سے کوفہ کی بجائے شام کا راستہ اختیار فرما لیا۔مسلم بن عقیل کے قتل میں براہ راست شریک اور خطوط بھیجنے والے غدار کوفیوں نے سمجھ لیا کہ اگر حسین یزید کے پاس پہنچ گئے تو اصل سازش فاش ہو جائے گی۔ ہزاروں خطوط ہمارے خلاف گواہ ہوں گے ، حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمو ہو جائے گی اور ہمیں پھر کوئی ہیں بچا سکے گا ۔ا۔۔ لہذا انہوں نے راlado ہ روکا ۔خطوط تو نہ ہž سیدنا حسین نے تین شرطیں رکھیں کہ مجھے واپس مکہ جانے دو، یا مجھے کسی سرحد پر جانے دو میں کسی جہاد میں شریک ہو جاؤں گا، یا پھر میں یزید کے پاس چلا جاتا ہوں۔وہ میرا ابن عم ہی تو ہے۔مگر ظالمو نے ایک شرط بھی نہ مانی اورنواسۂ رسول کو شہید کر دیا۔ واقعہ شہادت سیدنا حسین میں اہل نظر کے لیے بہت سی عبرتیں اور نصائح ہیں اس لیے اس واقعہ کے بیان میں سیکڑوں کی تعداد میں مفصل ومختصر کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں بکثرت ایسے رسائل ہیں جن میں صحیح روایات اور مستند کتب سے مضامین لینے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔اسی ضرورت کے پیش نظر مولانا مفتی محمدشفیع (صاحب تفسیر معارف القرآن ) نے بعض احباب کے تقاضہ پر تقریبا 65؍سال قبل زیر نظر رسالہ بعنوان''اسوۂ حسینی یعنی شہید کربلا'' تحریر کیا ۔ جس میں انہوں نے جگر گوشۂ رسول اکرم ﷺ سی social.