tareekh e tasawuf
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جم ع: صوفیاء) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار د یتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علماء کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم عل ماء نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔تصوف کا لفظ , اسلا می ممالک (بطور خاص برصغیر ) میں روحانیت, ترکِ دنیا داری اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علماء میں اس س ے معترض اور متفق , دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں؛ کچھ کے خیال میں تصوف شریعت اور قرآن سے انحراف کا نام ہے اور کچھ اسے شریعت کے مطابق ق رار دیتے ہیں۔ اس لفظ تصوف کو متنازع کہا بھی جاسکتا ہے اور نہیں ھی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشخاص خود تصوف کے طریقۂ کار سے متفق ہیں وہ اس کو روحانی پاک یزگی حاصل کرنے کے لیئے قرآن و شریعت سے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور جو اشخاص تصوف کی تکفیر کرتے وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور شریعت کے افراد کے گروہوں کے نزدیک تص وف کوئی متنازع شے نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو معاملہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے۔ دوسری جانب وہ افراد ، عالم یا محققین (مسلم اور غیرمسلم) کہ جو مسلمانوں میں موجود تمام فرقہ جات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک تصوف کا شعبہ مس لمانوں کے مابین ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے۔تصوف کا یہ سلسلہ ہندی، یونانی اور اسلامی تصوف پر مشتمل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" تاریخ تصوف " محترم پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کی تصنیف ہے جس میں ا نہوں نے تصوف کی تینوں اقسام ہندی، یونانی اور اسلامی کی تاریخ جمع کر دی ہے۔قطع نظر اس بات کے کہ اب اس میں بے شمار ایسے عقائد ونظریات داخل ہو چکے ہیں جن کا اسلام کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔(راسخ).